Skip to main content

 بدل دیا ہے کچھ اتنا خزاں نے چہروں کو

 بہار آئی تو شاید ہمیں پہچانے

 شاعر لکھنوی


 بیٹھ جاتا جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے

 ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے حفیظ جونپوری


  بے خودی میں ہوں تو تیرا در سمجھ کر جھک گئے

  اب خدا معلوم کا کعبہ بہ تھا کہ وہ بت خانہ تھا

 طالب جے پوری


 باغ میں میں میں لگتا نہیں صحرا سے گھبراتا ہے دل

 اب کہاں لے جا کے بیٹھیں ایسے دیوانے کو ہم

 نامعلوم


بارہا اس ساتھ وہ جس راہگزر سے گزرے 

جی بھر آیا یا کبھی تنہا جو ادھر سے گزرے

راغب مراد آبادی


 بھنور بھنور ہے اگر ہے اگر تلاطم کو تیرا دل کیوں دھڑک رہا ہے

 یہاں کچھ ایسے بھی ہیں جو سرکشی سے رواں رہیں گے 

عدم

Comments